تحریر: مولانا سید تقی عباس رضوی کلکتوی، نائب صدر اہل بیت ؑ فاؤنڈٰشن
حوزہ نیوز ایجنسی। تاریخ آدم و عالم کے اوراق گواہ ہیں کہ آج تک کسی بھی انسان پر ہونے والے مظالم کے خلاف بیک وقت دنیا بھر میں اس تواتر و تسلسل کے ساتھ احتجاج نہیں کیا گیا جتنا کہ نواسہ رسول ،جگر گوشہ بتول پر ہونے والے مظالم اور جبر و تشدد کے خلاف رد عمل کے طور پر احتجاج ہوا اور ابھی تک ہورہا ہے اور جب تک انسانیت باقی ہے احتجاج اسی انداز سے تاقیام قیامت ہوتا رہے گا ۔کیوں ؟اس لیے کہ حسین ؑعالم انسانیت کا محسن اور شہید انسانیت ہے جہاں شہادت حسین ؑنے اسلام کو حیات نوسے سرفراز فرمایا ہے وہیں ان کی یادیں اوران کی عزاداری بھی اسلام کو روز بروز تازگی عطا کر رہی ہے۔۔۔عزاداری امام حسین علیہ السلام در حقیقت قرآن و سنت ،سیرت نبویؐ کی عملی تفسیر اور اجر رسالت ہے، اہل بیت علیہم السلام سے محبت کا نمونہ،شعائر الٰہی کی تعظیم کا مصداق ہے، ظالم کے خلاف مظلوم کی فریاد کا اظہار ہے،عزاداری؛سے ہمیں زندگی سنوارنے کے زندہ اصول اور مشکلات کو دور کرنے کے لیے عملی طریقے ملتے ہیں یہ ہمارے ایمان کو تازگی ،پاکیزگی اور جلا بخشتی ہے۔یہ حب و بغض کا مظہر اور تقوائے قلوب کا باعث ہے،یہ ايك انقلاب ہے،یہ امام حسین علیہ السلام كي شخصيت اوران کے اہداف كي تكريم ہے اوراحیاء امر ائمہ ،خیر و برکت کاباعث اوردین کی بقا کا ضامن ہے ۔۔ لیکن!سوال یہ ہے کہ عزاداری ؛خوشنودی خدا اور رضائے ائمہ معصومین کا باعث اورہماری عبادت و شہ رگ حیات ہےتو پھر وہ کون سے عوامل ہیں جو ہمیں اور ہماری قوت کو بنام عزائے حسین منتشر اور ہمارے افکار کو پراکندہ کررہے ہیں ؟
کس شان سے قاتل ہیں عزاداروں میں
اللہ مرے خوں کو زباں کیوں نہیں دیتا!
آخر وہ کون سے اسباب ہیں جو ایک متحدومنظم قوم کومنتشرہجوم میں بدلنے کے درپے ہے؟ کیوں لوگوں کے درمیان اسقدر کسمپرسی کا ماحول ہے ؟ کیوں عزادار و بانئ عزاگرہوں میں بٹتے چلے جارہے ہیں ؟کیوں عزائےحسین کے نام پر ایک دوسرے کی شخصیت کشی کی جارہی ہے ؟کیوں علما ء و مراجع کرام کی برسرعام منقصت و توہین کی جارہی ہے ؟ کیوں مسا ئل دینیہ کا مذاق اڑیا جارہا ہے ؟ کیوں عزائے امام مظلوم کربلا کو ہم احکام و قوانین الہیہ سے جدا سمجھتے ہیں ۔۔۔؟کیوں محرم آتے ہی میری مجلس ،تیری مجلس ،تیرا علم ،میراعلم جیسی وبا کا لوگ شکار ہوجاتے ہیں ۔۔۔؟ اور کیوں ۔۔۔؟ کیوں ۔۔۔؟
کیا ہم اس بات کے قائل نہیں کہ عزائے حسین کی مقناطیسی قوت اعتقادات و عمل میں انقلاب برپا کرسکتی ہے !؟کیا ہم اس بات کے قائل نہیں کہ فرش ِمجلس سےعلم وہدایت کا خون معاشرہ کی رگوں میں پہنچتا ہےاوراس سےہدایت کی پھونٹنے والی کرنیں معاشرہ کےگوشہ گوشہ کومنوّر کرتی ہیں؟
کیا ہم اس بات کے معتقد نہیں کہ عزائے حسین اتحاد کا مرکز ہے ؟کیا ہم اس بات کے دعودار نہیں کہ اِنّى سِلْمٌ لِمَنْ سالَمَکُمْ،وَحَرْبٌ لِمَنْ حارَبَکُمْ، وَوَلِىٌّ لِمَنْ والاکُمْ، وَعَدُوٌّ لِمَنْ عاداکُمْ۔میری صلح اس سے ہے جس سے آپ کی صلح ہے اور میری جنگ اس سے ہے جس سے آپ کی جنگ ہے ،میری دوستی اس سے ہے جس سے آپ کی دوستی ہے اور میری دشمنی اس سے ہے جس سے آپ کی دشمنی ہے ؟
کیا ہم اس بات کے قائل نہیں کہ جہاں حسینیت ہے وہاں اخوت و یکجہتی ہے ،جہاں حسین ہیں وہاں دین و ایمان ،خدا خوفی اور خدا ترسی ہے ۔تو پھرکیوں ہم جہالت و غفلت اور وقت کے یزید و شمر ، خولی وسنان،عمر سعداور ابن زیاد جیسے ملعون و مخالفینِ مقاصد حسین علیہ السلام کے ہتھکنڈوں کا شکار ہیں ؟
کیا ہم نے نواسہ رسول ﷺسے یہ عہد نہیں کیا کہ اے حسینؑ!ہمارا عمل آپؑ کے عمل کے تابع ہے : یااَبا عَبْدِاللهِ،اِنّى اَتَقَرَّبُ اِلى اللهِ وَاِلى رَسُولِهِ، وَاِلى اَمیرِالْمُؤْمِنینَ وَاِلى فاطِمَةَ،وَاِلَى الْحَسَنِ وَاِلَیْکَ بِمُوالاتِکَ،وَبِالْبَرآئَةِ مِمَّنْ اَسَسَّ اَساسَ ذلِکَ،وَبَنى عَلَیْهِ بُنْیانَهُ، وَجَرى فى ظُلْمِهِ وَجَوْرِهِ عَلَیْکُمْ۔۔۔’’اے ابا عبداللہ !بے شک میں قرب چاہتا ہوں،خدا کا اس کے رسولﷺ کا امیر المومنینؑ کا فاطمہ زہرا ؑکا حسن مجتبیٰ (ع) کا اور آپؑ کا قرب آپکی محبت و مودت سے اور اس سے بیزاری کے ذریعے جس نے آپؑ کو قتل کیا اور آتش جنگ بھڑکائی اور اس سے بیزاری کے ذریعے جس نے آپ ؑپر ظلم وستم کی بنیاد رکھی اور میں بری الذمہ ہوں اﷲاور اس کے رسولﷺ کے سامنے اس سے جس نے ایسی بنیاد قائم کی اور اس پر عمارت اٹھائی اور پھر ظلم و ستم کرنا شروع کیا۔
کیا ہمارا یہ ورد زباں نہیں ہے کہ: اَشْهَدُ اَنَّكَ قَدْ اَقَمْتَ الصَّلوةَ وَآتَیْتَ الزَّكوةَ وَاَمَرْتَ بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَیْتَ عَنْ الْمُنْكَرِوَاَطَعْتَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ حَتّى اَتیكَ الْیَقینُ۔میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؑ نے نمازقائم کی اورزکوۃ اداکی،امربالمعروف اورنہی عن المنکرکیا،اللہ اوررسولﷺکی یقین کی حدتک اطاعت کی۔
ذرا غور و فکر کیجئیے!اوراپنے اِردگِرد کےحالات کابخوبی مشاہدہ کیجئےکہیں ایسا تو نہیں کہ جانےانجانےمیں اسلام دشمن طاغوتی قوتوں اورفتنہ پرستوں کا آلۂ کار بن رہے ہوں!
کہیں ایسا تو نہیں کہ نواسہ رسولﷺ کے مقاصد و مشن کی مخالف طاقتوں کاجومدت مدید سے عزاداری کی صورت کو بگاڑنےمیں لگی ہیں اور اس امور پرکڑوڑوں اور اربوں ڈالڑ خرچ کررہی ہیں ؛کا شکار تو نہیں ؟؟
کہیں حسین بن علیؑ کے مقاصد کی تبلیغ و ترویج سے ہراساں دشمنوں کے ہدف کا نشانہ تو نہیں ؛چونکہ عالمی استعمار نےتحقیق بسیار کے بعد یہ نتیجہ نکالا ہےکہ محبان اہل بیتؑ خصوصاشیعوں کے دلوں سے عشق ِحسینؑ تو محو نہیں کیاجاسکتا لہذا عزاداری پر ہی سازشوں کے جال بنے جائیں اورایسے پیشہ ور خطیب و مقرر ین کوخریدا جائے جو ان کا معاون و مددگار اور ان کے خواب ِدرینہ کو شرمندہ تعبیر کرسکے ۔
آج! عزاداری کے نام پرجو ہورہا ہے وہ سب پر عیاں ہے۔ کہیں مفاد پرست ،سستی شہرت کے خواہاں ذاکرین تو کہیں حق بیاں خداترس علماء و خطیب،کہیں بےعملی کے لائیسنس کی مفت تقسیم، تو کہیں دین کے احکام و قوانین پر عمل کی ترغیب و تشویق ، کہیں اخباری نمائندے، تو کہیں اصولی علماء ،کہیں مومن سینہ سپرتو کہیں مقصربرسر پیکار،کہیں نصریت کا غلو تو کہیں ملنگیت کاطلسم ،کہیں عمامہ کی تمجید تو کہیں ٹوپی کی ہتک حرمت،کہیں ایم آئی سکس کی وباءتو کہیں سی آئی اے کا مرض۔۔۔کہیں تعمیر ی افکار تو کہیں تنقیدی خیالات کا اظہار،کہیں تقلید تو کہیں ولایت فقیہ۔۔۔کہیں دشمنوں کے دسترخوان پر خطباء و شعرا اور نوحہ خوانوں کی بزم محفل، تو کہیں اس پر تجزیہ و تبصرہ۔۔۔ان جیسے مباحث اور اس سے رونماہونے والے فتنوں کے پیش نظر یہ کہنا حق بجانب ہے کہ وہ عزاداری جسے ائمہ مصومین علیہم السلام نے ہم سے چاہا ہے(جیساکہ امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں :من جلس مجلسا یحی فیه امرنا لم یمت قلبه یوم تموت القلوب۔ جو شخص کسی ایسی مجلس میں بیٹھے گا کہ جہاں ہمارے امر کا احیاء ہوتا ہو تو اس کا دل روز قیامت زندہ ہو گا جبکہ اس روز ہر دل مردہ ہوگا۔) ہم اس حقیقت سے کافی دور ہوتے جارہے ہیں کیونکہ جو تحریفات عزاداری میں عزاداروں کے ہی ہاتھوں ہورہی ہے وہ دشمنوں کی سازشوں کا حصہ اوراسی سامراجی مشن کا ایک شاخصانہ ہے۔جیساکہ مائیکل برانٹ نے اپنی کتاب"الہی ادیان میں اختلاف ڈالنے کا پلان" میں لکھا ہے:شیعہ مذہب سے براہ راست مقابلہ ممکن نہیں ہے اور شیعیت پر براہ راست حملہ سے کامیابی کا امکان بھی بہت کم ہے اس لئے ہمیں پشت پردہ کام کرنے کی ضرورت ہے لہذا طویل المعیاد پروگرام کے تحت اپنے تیار شدہ لائحہ عمل پر ہم عمل پیرا ہیں ۔۔۔۔۔
چھوڑ کر وَہم و گماں حسُنِ یقیں تک پہنچو!
موجودہ زمانے میں عزاداری امام حسین علیہ السلام کو جو خطرات در پیش ہیں اورعزاداری میں جو خرافات و انحرافات سرایت کرتی جارہی ہے وہ ناگفتہ بہ ہیں۔اور یہی خرافات، استیصال پسندرسومات وتوہمات؛ جہالت و نادانی ،عدم معرفتِ عزا یا پھر مخالفینِ عزاداری کے مبینہ منصوبےہیں جوعزاداروں کے ہاتھوں ہی پروان چڑھ رہی ہیں ۔
آج! عزاداری کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ لوگوں نےاسے’’ وسیلہ ‘‘نہیں ’’ہدف ‘‘بنالیا ہے اوراسے اُخروی اجر و ثواب،گھر و کاروبار میں خیر و برکت کا سبب یا آباء و اجداد سے ملنے والی وراثت کہ جسے بہرحال جاری رکھنا ہی ہےیاپھراپنے گناہوں کی بخشش کا ذریعہ لہذا جب کسی وسیلہ کو ہدف بنا لیا جاتاہے توو پھر وہی ہوتا ہے جو نہیں ہونا چاہیئے؛نہ حلال و حرام کی تمیز ،نہ جائز و ناجائز کا خیال اور نہ مقصد وغایت کی فکر اور نہ ہی اس کے سمت و جہت پر توجہ !بس مجلس و جلوس، ماتم و نوحہ خوانی ہونی چاہیئے ؛چاہے وہ جیسے، جس طریقہ سے ہو ،کرنا ہے۔
یہ بات ملحوظ خاطر رکھنے کی ہے کہ عزاداری امام حسین علیہ السلام ،احیائے دین ،احیائے امر ائمہ معصومین ؑ،اصلاح معاشرہ ،اصلاح نفس ،روح کی پاکیزگی،اخلاق کی بلندی، کردارکی تعمیر، ایمان کی نورانیت میں اضافہ اور تقرب الہی و۔۔۔کےلئےایک اہم’’وسیلہ‘‘ہےجس کا’’ ہدف‘‘اس سے کہیں اعلیٰ و ارفع معانی ومفاہیم حامل ہےلیکن قوم کی اکثریت ’’وسیلہ‘‘ میں الجھ کرگوہرِمقصود؛’’ہدف‘‘سےتہی دامن ہے!
امام موسی صدر اکثر اپنی مجلسوں اور تقریروں میں کہا کرتے تھے کہ امام حسین علیہ السلام کے دشمن صرف وہ نہیں کہ جنہوں امام ؑکو قتل کیا بلکہ وہ بھی امامؑ کے دشمنوں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے واقعہ ٔعاشور کے پیغامات کو بھلا دیا ۔یہی وجہ ہے کہ بعض نے بڑی عمدہ تحلیل کی ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے دشمن تین طرح کے ہیں :
۱۔پہلا گروہ ہے جس نے اپنے ہاتھوں کو فرزند رسولؑ کے خون سے رنگین کیا؛ امامؑ اور ان کے اصحاب کو تین دن کی بھوک و پیاس کے عالم میں بےدردی سے قتل کیااورآپ ؑکے اہل حرم کو اسیر بنایااور مدتوں قید و بند میں رکھ کر یہ سوچا کہ امام ؑکا مشن ختم ہو گیا حالانکہ یہ ان کی نادانی تھی، امام ؑقتل ہوکر تاابد زندہ و جاوید ہوگئے۔
۲۔دوسرا گروہ وہ ہے جنہوں نے بعد ِشہادت حسینؑ ان کے آثار کو مٹانے کی ہر آن کوششیں کی؛ قبروں پرہل چلادیے ،حرم میں آگ لگادیے،گنبدوں کو مسمار کردیا ،عزاداری پر پابندی لگادی اور زیارتوں پر سزا مقرر کردیئے!تاکہ یادِ حسین مٹ جائے۔ذکرِحسینؑ ختم ہوجائے۔ لیکن تاریخ آدم و عالم گواہ ہے کہ جتنی شدت کے ساتھ نام حسینؑ کو مٹانے کی کوششیں کی جاتی رہی اتنی ہی شدت سے نام حسینؑ عالم میں نمایاں ہوتا رہا ۔آج ! عالم انسانیت گواہ ہے کسی مذہبی رہنما کی زیارت پربلا تفریق مذہب و ملت مختلف ممالک سے تین کروڑ لوگ بیک وقت جمع نہیں ہوتے جو منظر ہر سال کربلا کا ہوتا ہے وہ بے نظیر و بے مثال ہے ؛اس گروہ کا ظلم و ستم پہلے والے گروہ کے ظلم و تشدد سےکہیں زیادہ ہے ۔
۳۔تیسراگروہ وہ ہےکہ جس نے امامؑ کو نہ ہی قتل کیا اور نہ ہی ان کے اہل حرم پر ظلم و ستم ڈھائے اور نہ ہی ان کے آثار مٹائے بلکہ اس نے جو کام انجام دئیے وہ گروہ اول و دوم سے زیادہ خطرناک اور شدید ترہے جو موجوده عصر کی عزاداری اور عزاداروں کے لیے خطرہ کی گھنٹی ہے اور وہ یہ ہے کہ عزائے حسین ؑ کے مخالفین عزاداروں کے بھیس میں واقعہ ٔعاشورا اور امام عؑالی مقام کے اہداف و مقاصد کے چہرہ کو مخدوش کرنےاور اسے صرف ایک تہوار وفیسٹیول کا رنگ دینے میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرنے میں لگےہیں ۔
اس گروہ کی مبینہ سازش کا حصہ اگر ہم اپنے ارد گرد کے ماحول پر نظر ڈالیں تو بخوبی مل جائے گا جہاں صرف گریہ و زاری ہے ماتم و نوحہ خوانی ہے علم و تعزیہ ہے ،زنجیر و قمعہ زنی ہے ۔ہاتھوں میں نت نئے ڈیزائن کی ہتھکڑیاں اور بعض کے پیروں میں موٹی موٹی بیڑیاں اورمجالس میں علیؑ رب جیسے غلو آمیز فلک شغاف نعرے اورواه واه کاشور و شرابا،نذر و چڑھاوااورمنت و مراد ہے و۔۔۔سب کچھ ہے لیکن امام کے قیام کا فلسفہ ،امام کے مشن کا ہدف ،امام کی عزاداری کا مقصد اسکی اہمیت و افادیت کا تذکرہ؛ ائمہ معصومین علیہم السلام کے امر کا احیاء ،امام وقت کے ظہور کی زمینہ سازی وغیرہ نہ کے برابر بھی نہیں ہے! بس نام نہاد،غالی مزاج، پیشہ ور ذاکرین ومقررین کےسطحی نوعیت کی باتوں پر بانیٔ عزا بهی خوش اور مجلس میں شریک ہونےوالے بهی خوش، رُولیا، رُلا دیا بانیٔ عزا کو گویا گوہر مقصود حاصل ہو گیا اور شرکت کنندگان کو تبرک وثواب اور یوں عشرہ ٔمجالس،خمسۂ مجالس،شب بیداریاں ،اٹھارہ بنی ہاشم اور ۷۲ تابوت جیسے بڑے پروگراموں کا ہدف پورا ہوگیا ۔۔۔!!کیا یہی نواسہ رسول ؐسے محبت کا نمونہ ہے؟ کیا یہی سیرت ائمہ معصومین علیہم السلام کا اتباع ہے ؟کیایہی انداز عزا؛ شہدائے کربلا کے مشن کا عکاس ہے ؟کیا یہی امام حسین علیہ السلام کے افکار کی تبلیغ و ترویج ہے ؟کیا یہی امام سجاد علیہ السلام اور سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کا مشن ہے ؟ کیا یہی قیام حسین ؑ کا مقصد تھا ؟ کیا یہی واقعہ ٔ کربلا کاہدف تھا ؟کیا یہی امام حسین علیہ السلام کی خواہش و آرزو تھی؟۔۔۔
اس حقیقت کو نہ سمجھو گے تو مر جاؤگے/ دل کا آئینہ دیکھو گے تو ڈرجاؤگے
یاد رہے !عزاداری ، شیعوں کی پہچان اور دینی تشخص ہے،یہ رسم نہیں ہے بلکہ یہ پیغام ِ کربلا کو عملی جامہ پہنانے کا نام ہے ،یہ حسینیؑ تحریک کی محافظت اور اسلامی اقدار کو اوج کمال تک پہنچانے کا ذریعہ اور معاشرہ کی تعمیر نوکا وسیلہ ہے ، یہی سرمایۂ آخرت اور ضامنِ حیات ہے ۔لہذا اس عبادت کو صرف رسم بنا دینا گویامقاصدِ امام ِ حسین ؑسے چشم پوشی اور روگردانی کرنا ہے اور جو مقاصد ِ حسینؑ سے روگردان ہو جائے وہ چاہے جو ہو ، ایک سچا حسینیؑ نہیں ہوسکتا!
آئیے! ائمہ معصومین علیہم السلام کے طرز عمل پر غور و فکر کریں تاکہ ہمارےطرزعمل میں ان کےمکارم اخلاق صفت وتوصیف اوراسوۂ حسنہ،کی جھلک نظرآئے۔اس لئے کہ اظہارِمحبت میں مزاج محبوب کی پاسداری خالص محبت کابنیادی لازمہ ہے۔محبت لازمۂ اطاعت ہےاور اطاعت سےمرادرغبت کے ساتھ پیروی ہے۔
تمہیں تاریخ ہو تاریخ کی تقدیر بھی ہو/ ہاں تمہیں سینہ ٔتخریب میں تعمیر بھی ہو
عزاداری امام حسین علیہ السلام کو در پیش خطرات جیسے اہم موضوع پر خامہ فرسائی کرنا مجھ جیسےبے بضاعت کا کام ہرگز نہیں،ہاں!موجودہ حالات اور نت نئےطریقوں سےنت نئےاندازمیں کی جانے والی عزاداری اور امام مظلوم کربلا کے اس ارشاد ’’ اِنَّما خَرَجْتُ لِطَلَبِ الاِصْلاحِ فِی اُمَّة جَدِّی، اُرِیدُ اَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ اَنْهى عَنِ الْمُنْکَرِ۔۔۔‘‘و أَلاٰ تَرَوْنَ أَنَّ الْحَقَّ لاٰ یُعْمَلُ بِهِ وَانَّ الْبٰاطِلَ لاٰ یُتَنٰاهیٰ عَنْهُ کے پیش نظر چندسطریں کسی کی دل آزاری کے بغیرسپردِقرطاس کرنےکی طالب علمانہ کوشش ہے۔شاید اس سے ہمارےتزکیہ اورتطہیر کا امکان ہوجائےاورہمارا معاشرہ اپنےدرخشان ماضی کی طرح ایک درخشاںمستقبل کےساتھ بیدارہوجائے۔
ہےوہی تیرےزمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضروموجودسے بیزار کرے
عزاداری امام حسین علیہ السلام کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والےاسباب حسب ذیل ہیں :
1) عدم معرفت و آگہی: عزاداری ؛ اسی وقت خوشنودی الہی اور تقرب اہل بیتؑ عصمت و طہارت کا سبب ہوگی جب عزاداروں کو اس کی صحیح معرفت و آگاہی اوریہ اپنے تمام شرائط و قوانین کے ساتھ منعقد ہو۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :لايقبل الله عملا الا بمعرفة۔ معرفت کے بغیرخداوندعالم کوئی بھی عمل قبول نہیں کرتا اگر بانی عزا اور شرکاء اس بات سے غافل و جاہل ہوں گے تو یہ نہ تو مثمر ثمر واقع ہو گی اور نہ ہی نتیجہ مطلوب تک پہنچ پائے گی ۔۔۔بعدشہادت امام حسین علیہ السلام امام سجاد علیہ السلام نے اسی عزاداری اور ذکر کربلا کو تبلیغ دین اور معارف و علوم آل محمد کی ترویج کا ذریعہ بنایا تو زمانے میں انقلاب برپا ہو گیا ۔اک آج کی عزاداری ہے جو چودہ سو سال سےبرپا ہو رہی ؛غیروں میں تو کیا خود میں انقلاب پیدا نہ کرسکی !یہ جہالت و غفلت اور عدم معرفت کے ہی آثار تو ہیں کہ عزاداری میں سب کچھ ہے روح حسینی نہیں ہے ،سیرت حسینؑ کی تجلی نہیں ہے ،کردار سازی کی رمق نہیں ہے، اصلاح معاشرہ کی فکر نہیں ہے ،ظلم و ستم کے خلاف مظاہرہ نہیں ہے ،لوگوں کے حقوق کی پائمالی پر کوئی اعتراض نہیں ،عدل و انصاف نہیں ہے ،برائی ،بے دینی،بے حیائی ،بے پردگی کے خلاف کوئی صدائے احتجاج نہیں ہے ۔تو پھر ان مجالس عزا کا ماحصل کیا ہے ؟ذکر کربلا کا فلسفہ کیا ہے ؟اس غیر منطقی رویوں کی پھر دوا کیا ہے؟
خدا وندعالم کے اس ارشاد :ومن یعظم شعائر اللہ فانہا من تقوی القلوب ۔کہ شعائر الہیہ کی تعظیم لوگوں کے تقوائے قلوب کا سبب ہے ۔سورہ حج کی اس بتیسویں آیت کے پیش نظر یہ کہنا درست ہوکہ ہمارے معاشرہ میں مجالس و ماتم اور سامان عزا کو شعائر الہیہ کا درجہ حاصل نہیں ہے یا پھر لوگوں کا یہ نعرہ :بِاَبِیْ اَنْتُمْ وَ اُمِّیْ...وَ فُزْتُمْ فَوْزاً عَظِیْماً فَیَا لَیْتَنِیْ کُنْتُ مَعَکُمْ فَاَفُوْزَ مَعَکُمْ. (معاذ الله!)جھوٹا اور بغیر معرفت ہے ۔اگر اس میں ذرا بھی سچائی ہوتی تو امام کی عزاداری جو خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے کی صحیح معرفت و آگہی ہوتی اور جو حالت زار ہے وہ کبھی نہیں ہوتی ۔جنہیں امام اور امام کے ذکر کا عرفان اس کی قدر و قیمت کا اندازہ ہے وہ مقصد حسین کی ترویج میں آج بھی پیش پیش ہیں اور دشمنان دین سے برسرپیکار اور ان کے سینوں میں موت کا خنجر بن کر اتررہے ہیں ۔لہذا وقت کی یزیدیت(یورپ و امریکہ و۔۔۔) کو ایسے عزاداروں سے خطرہ ہے جو مقصدحسین کی تبلیغ وترویج اور اصلاح نفس اور اصلاح معاشرہ کے لیے عزاداری کرتے ہیں ۔خیر و برکت ، گریہ و زاری ،ثواب ،انجمن بازی اورتہوار سمجھ کر نہیں !دشمنوں کو لبنان و ایران وغیرہ کی عزاداری اور وہاں کے عزاداروں سے خطرہ ہے ہندو پاک سے نہیں یہاں کا المیہ تو یہ ہے کہ یہاں ہر بے معرفت کے حوالے منبر کردیا جاتاہے ہرکس و ناکس کو علامہ اور آیت اللہ بنا دیا جاتا ہے ۔۔جو قابل غور ہے ۔
شکوہ کرتا ہوں ہرزخم لہو دیتا ہے شکوہ کرتا ہوں تو اندیشہ رسوائی ہے
2) کسی عمل کا عادت میں تبدیل ہوجانا:یہ بھی جہالت و نادانی کے سبب پیدا ہونے والا ایک مرض ہے جو کہ جب کوئی عمل(عبادت) عادت میں بدل جاتا ہے تو وہ بے قیمت و بےفائدہ ہوجاتا ہے ۔عادت ،عبادت کے اجر و ثواب اور اس کے اثرات کو بے نورکردیتا ہے ۔جب کسی عمل کو انجام دینے والا اس کے احکام و شرائط اور اس کے فلسفہ سے واقفیت وآشنائی نہ رکھتا ہوتو ناچار اسے بے توجہی سے انجام دیتاہے۔ اور یہ بے توجہی اورغفلت اس بات کا موجب بننےلگتی ہے کہ وہ کسی بھی طرح انجام پاجائے۔ چاہے وہ ایک رسم ہی کی صورت میں ہو ۔۔۔اسی طرح عزاداری بھی ہے اگر بانیٔ عزا اور شرکائے مجلس کے لئے یہ عزاداری ایک عادت بن جائے تو پھر اس کی کیفیت و ہدف پر بحث نہیں ہوگی کہ اس کا مقصد و غایت کیا ہے اسے کیسا ہونا چاہیئے ،اس کے اثرات و فوائد کیا ہیں ؛اس سےغض بصر کرتے ہوئے کہ یہ ایک وسیلہ ہے خود ہدف میں تبدیل ہوجائے گی ۔یہ بھی دوسرے اعمال کی طرح ثوابا کسی طرح منعقد ہو، کا مصداق ہوکر رہ جائے گی ۔امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جو بھی بغیر بصیرت و شناخت کسی عمل کوسرعت کے ساتھ سےانجام دےگا اتنی ہی سرعت اس عمل کی تیز ہوتی جائے گی اوروہ اس کے ہدف سے اتنی ہی زیادہ دور ہوتا چلا جائے گا ۔ لہذا کسی عمل خاص کرعزاداری امام حسین علیہ السلام کو عادت نہ بنایاجائے۔
3) منبرکے تقدس کا خیال نہ رکھنا:اس بات سے عموماً بانیٔ عزا غافل ہیں کہمنبر اللہ کی طرف سے اتاری گئی ہدایت کی اشاعت کا محوراورکرداروافرادسازی کاسب سےبڑامرکزہے ۔یہ عبد و معبود کےبیچ رابطہ کاسب اہم وسیلہ ہے ۔ جاہلوں ،غالیوں کو منبروں پر لانایہ بھی در واقع خطرہ کی ایک کڑی ہے۔منبرکےتقدس کا خیال ہمیشہ بانی ٔ عزا کو رکھنا چاہئیے ۔غیرمستند،غیر منہجی اورغیرمتشرع لوگوں کومنبر پرجگہ دےکرہدایت اوراصلاح کےاس منبع کو آلودہ کرنا ایک عظیم گناہ ہے ۔بڑے افسوس !کا مقام ہے کہ آج عوام کی سادہ لوحی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسے کم پڑھے لکھے، غیر عالم منبر پر آنے لگیں ہیں جن کے لیئے یہ کہنا بجا ہوگا کہ نیم حکیم خطرہ ٔجاں اور نیم ملا خطرہ ٔایماں ؛جب ایسے لوگ منبر پر آئیں گے تو کیا ہوگا !؟
زوربیان،شورخطابت،غیر متشرع مفسدین کے افکار اور غالیوں کے عقائد کی ترویج ہوگی ،سامعین کےدینی،عقیدتی مزاج اورعلمی معیارپر ڈاکہ زنی اور انہیں ختم کرنے کی کوشش ہوگی ،رشد و ہدایت کا دروازہ بند ہوجائے گا، قوم خرافات و انحرافات سے دوچار ہوگی اور ہر طرف اصلاح احوال کے بجائے فتنہ سر اٹھاتا پھر ے گا کہیں قومی عصبیت بھڑکے گی ، کہیں فرقہ وارانہ جنگ چھڑے گی اور کہیں غلو کی مسموم فضا لوگوں کو ہلاک کرے گی۔لہذا منبروں کے تقدس کا خیال رکھتے ہوئے بانی عزا ؛ متقی ،پرہیزگار،خوف خدا رکھنے والےصاحبان علم کو منبر پر لانے کی کوشش کریں اورایسے غالیوں سے بچیں جن پر خدا و رسولؐ اور ائمہ معصومین ؑ کی لعنت ہے ۔رسول خدا ﷺ نےفرمایا:ایکم والغلو فی الدین فانما هلک من کان قبلکم بالغلو فی الدین۔ اےلوگو!دین میں غلو کرنےسے بچو کیونکہ تم سے پہلےلوگ(قومیں)دین میں اسی غلو کی وجہ سےتباہ وبرباد ہوگئے ۔''خدا غالیوں پر لعنت کرے ۔ ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے پرہیز کرو ۔ان کی دوستی سے دوری اختیار کرو ۔جس طرح خدا نے ان سے اپنی بیزاری کااعلان کیا ہے تم بھی برأت کا اعلان کرو۔ ''خدا کی قسم! غالی یہودیوں ، عیسائیوں ، مجوسیوں اور مشرکوں سے بھی بد تر ہیں ۔ایسے جاہلوں سے منبر کو آلودہ نہ کریں جو معارف اہل بیت علیہم السلام اور مقاصد حسین علیہ السلام کو بیان کرنے کے بجائے کرتب دکھاکر شرکائے مجالس کو وقت ضائع کرتے ہیں ۔
4) عزاداری امام حسین علیہ السلام کا با مقصد نہ ہونا:عزاداری اپنے مقاصدو اہداف کے اعتبار سے ہدف مند ہو اگر یہ اپنے مقاصدسے دور ہو جائے تو بجائے اس کے کہ یہ موثر ثابت ہو ممکن ہے یہ عوام الناس اور اس میں شریک ہونے والے افراد پر اپنا منفی اثر ات بھی مترتب کرے۔عزائےحسین در حقیقت نصرت امام "ہل من ناصر ینصرنی"کا ایک مصداق ہے اور اس کا مقصدو ہدف وقت کے امام کی نصرت و مدد ہے ۔امامِؑ وقت جو درحقیقت منتقم خون ِ حسین ؑ اور کربلا کا حقیقی عزادار ہے وہ آج بھی اپنے چاہنے والوں کی نصرت و مدد کا خواہاں اپنی غربت و تنہائی پر ماتم کناں ہے! امام وقت کی نصرت و مدداس صورت میں کی جاسکتی ہے کہ اس گرانقدروسیلے و ذرائع کے ذریعہ عالم انسانیت کو خاص کر قوم کی نسل نو کو حقیقی اسلام اور اس کے صحیح معارف و سریت ائمہ معصومین علیہم السلام سے متعارف کرایا جائے،منجی عالم بشریت کی غیبت کےعوامل اور ان کی تعجیل فرج میں موانع اسباب بتا ئے اورسمجھائے جائیں تاکہ انہیں وقت کے امام کی صحیح معرفت ہوپائے ۔اور وہ اس طرح ایک سچے عزادار اور بامقصد عزاداری کے بانی بن سکیں ۔
5) امام حسین علیہ السلام کی شخصیت کو صرف ایک جہت سے پیش کرنا:عزاداری کی مشکلات میں ایک مشکل یہ بھی ہے کہ اکثر و بیشتر یہ ایک جہتی مباحث کی حامل ہے اور وہ یہ ہے کہ کربلا کا بے آب گیا ہ صحراء، امام مظلوم اوران کے اہل حرم کی تین دن کی بھوک و پیاس ،دشمن کے حملے،ظلم و بربریت ،قتل و غارتگری،بے گورو کفن اصحاب و انصار کے لاشے و۔۔۔عواطف و احساسات وغیرہ سے لبریز پہلو ہی پیش کرنا ۔۔۔حالانکہ امام کی زندگی کا ہر پہلو ۴ہجری سے ۶۱ ہجری تک کا ہر باب ہمارے لئے مشعل راہ ہےوہ چاہے مادی ہو یا معنوی؛ ان کی زندگی کا ہر گوشہ ہماری روز مرہ زندگی اورجدیدنسل کی بےچینی اورذہنی کرب کے سکون و اطمینان کا باعث اور بہترین نمونہ عمل ہے ۔لہذا ایک جہتی پہلو کو پیش کرنے سے گریز کرتے ہوئے مجالس و محافل میں ائمہ اطہار علیہم السلام کی زندگی کا ہر پہلو مختصرا بیان کیا جائے ۔
6) مجالس عزا میں تجارتی افکار کاوارد ہوجانا:عزاداری امام حسین علیہ السلام میں تجارتی افکار کی لہر نے ہی عزاداری کی سیرت و صورت بگاڑ رکھی ہے۔پیشہ ور ذاکرین و نوحہ خوانوں وغیرہ نے دنیا پرستی کے اس دور میں ذکر حسین علیہ السلام کو بھی نظم و نثر کے اعتبار سے اپنی آمدنی کا ذریعہ بنا لیا ہے۔لہذاعاشوراکےتابناک و درخشاں پہلو اور اس کے انقلابی اصول عوامی سطح پرماند پڑ گئے !
کربلا ميں حاضرہونےوالےافراد بھی اموي حکومت سےمقام اورمنصب حاصل کرنےکےلئےآئےتھےجيساکہ مسروق بن وائل کا کہناہے کہ ميں ابن زيادکےنزديک مقام حاصل کرنےکےلئےصف اول ميں رہا تاکہ امام حسین علیہ السلام کےسر مبارک کو اپنےہاتھوں سےجداکروں،تاکہ زیادہ زیادہ مال و زر میرے ہاتھ لگے ۔آج اسی مال و زر اور شہرت کی ہوس میں علما،خطبا، مقررین اور ذاکرین کا ایک خاص ٹولہ غرق نظر آتا ہے ۔جو منبروں پر بڑی اچھی اچھی باتیں کرتا ہے لیکن لفافے لیتے وقت جھگڑنے بھی لگتا ہے ۔اور اس گناہ کے بانی پیشہ ور ذاکرین نہیں بلکہ نادان بانی عزا ہیں ۔ جو تاجران خون حسین کو ذکر حسین کی دعوت دیتے ہیں ۔امام مظلوم کربلا کی یہ بات میری اس بات کی تائید ہے کہ آپ ؑ نے فرمایا : الناس عبید الدنیا و الدّین لعق علی ألسنتهم یحوطونه ما درّت معائشهم۔ عوام دنیا کے غلام ہیں اوراپنی دنیاوی زندگی کوبہتر بنانےکےلیے اپنی زبانوں پردین کاوردکرتےرہتے ہیں.نیزحضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا :اے ابا نعمان ! ہمیں روزی کمانے کا ذریعہ نہ بناؤ ۔ اس سے خدا تمہاری غربت میں اضافہ کرے گا۔
7) غیر مستند باتوں کو امام حسین علیہ السلام سے نسبت دینا :کربلا میں ہونے والے مصائب و آلام کی دنیائے انسانیت میں کوئی نظیر نہیں ملتی اور نہ ہی کوئی ایسا صاحب دل ہے جو کربلا میں پیش آنے والے مصائب و الم کو بیان یا وصف کرسکے ۔کربلا کے دورخ ہیں:پہلا رخ لشکر یزید کی ظلم و بربریت اور مظلومیت حسین ۔ دوسرا رخ صبر و استقامت ،عزت وکرامت کا ہے لہذا جب کربلا پر تبصرہ و تحلیل ہو تو ان دو نوں کو ایک دوسرے کے ہمراہ بیان کیا جائے ورنہ مخاطبین کربلا اور امام کے قیام کو صحیح درک کرنے سے قاصر رہیں گے ؛اس لئےمقررین و ذاکرین اور عزاداروں کو چاہئیے کہ ایسی باتوں کو کربلا یا امام حسین علیہ السلام سے منسوب نہ کریں جو جھوٹ اور بے بنیاد ہوں جیسے :کربلا میں امام حسین کےمدمقابل لشکر میں چھ لاکھ سوار،دس لاکھ پیادہ یا آٹھ لاکھ سپاہی تھےاورامام حسین علیہ السلام نے ان میں سے تین لاکھ افراداوراسی طرح حضرت عباس علیہ السلام نےپچیس ہزارافراد کوقتل کیا تھا ۔ دوسری جانب تاریخ کی مستند گواہی ہے کہ یزیدی لشکر کی تعدادتیس ہزارسےاسی ہزاریا ایک لاکھ سےزیادہ نہ تھی اورامام حسین علیہ السلام کےہاتھ سے واصل جہنم ہونےوالوں کی تعداداٹھارہ سوتھی ۔اس قسم کی دیگر بے بنیاد و بے اساس باتیں جیسے :حبیبؑ ابن مظاہر سے شب عاشور سیدہ زینبؑ کا وعدہ ، عہد و پیمان لینا ،جناب قاسمؑ کی شادی کی داستان ،ام لیلی کا جناب علی اکبر ؑکی سلامتی کی دعا کرنا ، ذوالجناح کی عجیب و غریب داستان کا نقل کرنا وغیرہ جو جانے انجانے میں کم علم افراد بیان کیا کرتے ہیں جو روضۃ الشہدا نامی کتاب سے لی گئی ہیں اورمحدث نوری نے جب عزاداری امام حسین ؑمیں جھوٹ اور خرافات کی ملاوٹ دیکھی تو سید محمّد مرتضی جونپوری ہندی کے کہنے پر لؤلؤ و مرجان نامی کتاب لکھی تا کہ عزاداری کی اصلاح ہوسکے۔یہ بات قابل غور ہے کہ جھوٹ اور خرافات؛ لوگوں کوبجائے امام سے نزدیک کرنے کے ان سے دور کردے گالہذا واقعہ ٔعاشورا کو اسی انداز میں بیان کیا جائے کہ جیسا وہ پیش آیاہے۔اس لیے کہ عزاداری کے مقاصد و اہداف میں خرافات سرایت کر گئی تو گویا شہادت امام ؑکے ہدف کو بھی یہ کم رنگ و بے اسا س کرسکتی ہے ۔
8) احکام الہیہ کی پابندی نہ کرنا:ایام عزا میں خاص کرعزاداروں کواحکام الہیہ کی رعایت اور اسے پابندی وقت سے انجام دینے کی ضرورت ہے ۔اس سے تساہلی برتنا گویا امام علیہ السلام کے مقاصد کے اہم اجزا کی توہین کرنا ہے ۔روز عاشور جب ابو ثمامہ صاعدی ؑنے جب امام سے یہ عرض کیا مولا میں یہ چاہتا ہوں کہ اپنے رب سے اس حال میں ملاقات کروں کہ اپنی نماز کہ جس کا وقت آن پہنچا ہے اس ادا کرلوں ۔امامؑ نے فرمایا :خدا تمہیں نماز گزاروں میں شمار کرے لشکر یزید سے کہو کہ جنگ کو روک دیں اور پھر امام ؑنے اپنے باوفا جانثاروں کے ہمراہ نماز ادا کی ۔اس وقت عمر سعد وشمر ملعون نے نماز کا مذاق بھی اڑایا جس طرح آج بھی کچھ عاشقان ِحسینؑ اپنے امام ؑکے طرز عمل پر عمل پیرا ہوکر اول وقت نماز ادا کرتے ہیں اور عمر سعد و شمر ملعون کی تتبع اختیار کرنے والے افراد ان کا بھی مذاق اڑاتے ہیں اور ان کے اس عمل پر چہ می گوئیاں بھی کرتے ہیں ۔حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام نےفرمايا:من اطاع الله فهو وليّنا ومن عصي الله فهو عدونا؛ جس نےخداکی اطاعت کی وہ ہمارادوست و مددگار ہے اورجس نےخدا کی مخالفت کی وہ ہمارا دشمن ہے۔آج!عزاداری میں بانی ٔ عزا اور عزادار بن کر بہت سے لوگ عزادار حسینؑ بن کرشامل وشریک تو ہورہےہیں لیکن ان کےعمل سے ایک سچے عزادار کا عمل نہ جھلکے تودرحقيقت وہ بھی امام حسین علیہ السلام کے اہداف کےقاتل ہيں۔
9) عزاداری میں خودنمائی اورشہرت طلبی کا رواج قائم کرنا :موجودہ معاشرےمیں ایسے افرادموجود ہیں جوصرف دوسروں کو خوش کرنےیااپنےعمل کوظاہرکرنےکی نیت سےکام کرتےہیں اس طرح کےافراد اپنےرفتاروکردارمیں خداکی مرضی کونظر انداز کرتے ہیں ۔ ایسے ہی افراد میں دور حاضر کےعزاداراور بانی عزا بھی شامل ہیں !مجلس و نوحے پڑھنے والوں سے لے کر بانیٔ مجلس تک میں اس قدر دکھوا اور خود نمائی کی نحوست پیداہوگئی ہے کہ جو کچھ بھی وہ انجام دے رہے ہیں وہ نام ونمود اور شہرت طلبی کی خاطرہےکہیں مجلس پڑھی،کہیں سوز و سلام اور نوحہ خوانی کی توبارگاہ مولا میں پیش کرنے کےبجائے اسے پہلےفیس بک،ٹیوٹر اور واٹسپ جیسے شوشل میڈیا کے حوالے کردیاجاتا ہے! گویا ہر ہر قدم پرتظاہر و ریاکاری جیسے مذموم عمل کو انجام دیا جا رہا ہے ۔حتی نذر و نیاز اور تبرکات میں بھی یہی حال ہے جس کی وجہ سے بعض افراد جائز و ناجائز کمائی کو بھی اس راہ میں خرچ کرنے سے گریز نہیں کرتے تاکہ دنیا ان کی تعریف و تمجید کا قصیدہ پڑھے ۔
10) توہین آمیز کلمات وناپسندیدہ افعال کا امامؑ اور ان کے اہلِ حرم کی طرف منسوب کرنا:جیسے قاسمؑ نوشاہ ، عابدؑ بیمار،زینبؑ مضطر۔۔۔وغیرہ یاپھرحرم حسینی ؑ میں سینے کے بل چلنا ،رخساروں پر ماتم کرنا ،کپڑوں کو پھاڑنا،معصوم بچوں کے سر و سینہ پر زبردستی تیغ و قمعہ لگانا ،انگاروں پر نماز کا ادا کرنا ،ذوالجناح کی نماز میت و تدفین کرنا ،نظم و نثر کو فلمی انداز میں پڑھنا وغیرہ۔جسے سن کر وہ قومیں جو تاریخ عاشورہ سے واقفیت رکھتی ہیں وہ اس عمل کا برسرعام مذاق اُڑاتی ہیں ۔
آئین سروری کی حافظت ہے اور حسینؑ/ پاکیزہ اک سماج کی چاہت ہے اور حسینؑ
یہ ہماری عزاداری کی ظاہری شکل و صورت اور اندرونی مسائل ہیں تو دشمن اس سے کیوں نہ فائدہ اٹھائیں !جیسے جیسے وقت و سال گزررہا ہے ویسے ویسے اس میں تبدیلی رونما ہورہی ہےاور یہ کوئی بری چیز نہیں ہے۔لیکن احکام و آداب اور شرعی حدود و قوانین کے اندر کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ تبدیلی مذہب تشیع کے تمسخر اور اس کے مقدِّسات کی توہین کا باعث بن جائے جیساکہ عالمی پیمانے پر آج قمعہ اورزنجیر زنی و غیرہ جیسی شیعیت پر کاری ضرب کا مخدوش چہرہ دکھا کر عالمی برادری کو مذہب شیعیت سے دور کیا جا رہا ہے!لہذا ان حالات کوبدلنے کےلئےپہلےخودکوبدلناہوگا۔اور اس حسّاس اور نازک کام میں علمائےحق اور قوم کا بیدارمغز طبقہ آگے آ کر عزائےحسینؑ کے’’ اہداف و مقاصد،مضامین و مطالب اور سمت و جہت‘‘ کو متعین اور اس میں پائی جانے والی خرابیوں پر تنقید برائےاصلاح اورعلمی مباحثہ کرے تاکہ ان حقائق سے بے خبربانیٔ عزا اورسچےعزاداروں کی صحیح معنوں میں رہنمائی مل سکے اور وہ کربلا کی تعلیمات اور منشوراتِ حسینی کی روشنی میں عزائے حسینؑ کے ساتھ ساتھ اپنے اندر وہی صفات پیدا کرنےکی سعی کریں جو حسین ؑو اصحاب حسین ؑکے اندر پائی جاتی ہیں ۔تب کہیں جاکر معاشرہ میں امام ِؑوقت منتقم ِخون حسین ؑکے ظہور کا زمینہ فراہم اورفکری ،دینی،ثقافتی و سماجی انقلاب پیدا ہوپائے گااور یہ انقلاب اسی کربلا کے اسباق میں مضمرہےجو ہمارے استحکام و بقاء اور اتحاد کامرکز و محور ہے اورسیرت حسینؑ ہی میں اقوام ِعالم کے تمام مسائل کا حل بھی موجود ہے۔
بھٹکے اذہان کو اک راہ پہ لانا ہوگا
مقصدِزیست زمانے کو بتانا ہوگا